زیرِ گرداب، نہ بالائے مکاں بولتی ہے
خامشی آ کے سرِ خلوتِ جاں بولتی ہے
یہ مرا وہم ہے یا مجھ کو بلاتے ہیں وہ لوگ
کان بجتے ہیں کہ موجِ گزراں بولتی ہے
لو سوالِ دہنِ بستہ کا آتا ہے جواب
ایک میں ہوں کہ اس آشوبِ نوا میں چپ ہوں
ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے
ہُو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیرِ گراں بولتی ہے
درد کے باب میں تمثال گر ہے خاموش
بن بھی جاتی ہے تو تصویر کہاں بولتی ہے
عرفان صدیقی
No comments:
Post a Comment