غزلیں نہیں لکھتے ہیں قصیدہ نہیں کہتے
لوگوں کو شکایت ہے وہ کیا کیا نہیں کہتے
اور اپنا یہی جرم کہ باوصفِ روایت
ہم ناصحِ مشفق کو فرشتہ نہیں کہتے
اجسام کی تطہیر و تقدس ہے نظر میں
ہم نے کبھی دنیا کو حماقت نہیں سمجھا
ہم لوگ کبھی غم کو تماشا نہیں کہتے
انسان کے چہرے کے پرستار ہوئے ہیں
اور قاف کی پریوں کا فسانہ نہیں کہتے
وہ بھی تو سنیں میرے یہ اشعار کسی روز
جو لوگ نئی نسل کو اچھا نہیں کہتے
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment