غمِ دوراں نے بھی سیکھے غمِ جاناں کے چلن
وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن
وہی اقرار میں انکار کے لاکھوں پہلو
وہی ہونٹوں پہ تبسم وہی ابرو پہ شکن
کس کو دیکھا ہے کہ پندارِ نظر کے باوصف
کونسی فصل میں اس بار ملے ہیں تجھ سے
ہم کو پرواۓ گریباں ہے نہ فکرِ دامن
اب تو چبھتی ہے ہوا برف کے میدانوں کی
ان دنوں جسم کے احساس سے جلتا تھا بدن
ایسی سونی تو کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی
دل بجھے جاتے ہیں اے تیرگئ صبحِ وطن
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment