Friday, 29 March 2013

قدم اٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی

قدم اُٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی
نظر دِیے کی طرح چوکھٹوں پہ جلتی رہی
کچھ ایسی تیز نہ تھی اُس کے انتظار کی آنچ
یہ زندگی ہی مری برف تھی پگھلتی رہی
سروں کے پھول سرِ نوکِ نیزہ ہنستے رہے
یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی
ہتھیلیوں نے بچایا بہت چراغوں کو
مگر ہوا ہی عجب زاویے بدلتی رہی
دیارِ دل میں کبھی صبح کا گجر نہ بجا
بس ایک درد کی شب ساری عمر ڈھلتی رہی
میں اپنے وقت سے آگے نکل گیا ہوتا
مگر زمیں بھی مرے ساتھ ساتھ چلتی رہی

عرفان صدیقی

No comments:

Post a Comment