Friday, 29 March 2013

کہانیاں بھی گئیں قصہ خوانیاں بھی گئیں

کہانیاں بھی گئیں قصہ خوانیاں بھی گئیں
وفا کے باب کی سب بے زبانیاں بھی گئیں
ہوا چلی تو ہرے پتے سوکھ کر ٹوٹے
وہ صبح آئی تو حیراں نمائیاں بھی گئیں
وہ میرا چہرہ مجھے آئینے میں اپنا لگے
اسی طلب میں بدن کی نشانیاں بھی گئیں
پلٹ پلٹ کے تمہیں دیکھا پر ملے بھی نہیں
وہ عہد ضبط بھی ٹوٹا، شتابیاں بھی گئیں
مجھے تو آنکھ جھپکنا بھی تھا گراں لیکن
دل و نظر کی تصور شعاریاں بھی گئیں

کشور ناہید

No comments:

Post a Comment