کہانیاں بھی گئیں قصہ خوانیاں بھی گئیں
وفا کے باب کی سب بے زبانیاں بھی گئیں
ہوا چلی تو ہرے پتے سوکھ کر ٹوٹے
وہ صبح آئی تو حیراں نمائیاں بھی گئیں
وہ میرا چہرہ مجھے آئینے میں اپنا لگے
اسی طلب میں بدن کی نشانیاں بھی گئیں
پلٹ پلٹ کے تمہیں دیکھا پر ملے بھی نہیں
وہ عہد ضبط بھی ٹوٹا، شتابیاں بھی گئیں
مجھے تو آنکھ جھپکنا بھی تھا گراں لیکن
دل و نظر کی تصور شعاریاں بھی گئیں
وفا کے باب کی سب بے زبانیاں بھی گئیں
ہوا چلی تو ہرے پتے سوکھ کر ٹوٹے
وہ صبح آئی تو حیراں نمائیاں بھی گئیں
وہ میرا چہرہ مجھے آئینے میں اپنا لگے
اسی طلب میں بدن کی نشانیاں بھی گئیں
پلٹ پلٹ کے تمہیں دیکھا پر ملے بھی نہیں
وہ عہد ضبط بھی ٹوٹا، شتابیاں بھی گئیں
مجھے تو آنکھ جھپکنا بھی تھا گراں لیکن
دل و نظر کی تصور شعاریاں بھی گئیں
کشور ناہید
No comments:
Post a Comment