بظاہر رنگ، خوشبو، روشنی یکجان ہوتے ہیں
مگر یہ شہر اندر سے بہت ویران ہوتے ہیں
کوئی مانے نہ مانے، گفتگو کرتی ہے خاموشی
پس دیوارِ حسرت بھی کئی طوفان ہوتے ہیں
اُلجھ جائیں تو سلجھانے کو یہ عمریں بھی ناکافی
سرابوں کی خبر رکھنا گھروں کو چھوڑنے والو
کئی اک بے در و دیوار بھی زندان ہوتے ہیں
یہاں ساری کی ساری رونقیں ریگِ رواں سے ہیں
بگولے ہی تو ریگستان کی پہچان ہوتے ہیں
پلٹ آنے کا رستہ اور ہی کوئی بناتا ہے
مسافر سب کے سب انجام سے انجان ہوتے ہیں
تو پھر آنکھوں میں سپنے ایک سے کیونکر نہیں اگتے
لکیروں کے اگر دونوں طرف انسان ہوتے ہیں
سفر تو چلتے رہنے کی لگن سے شرط ہے عظمیؔ
جنہیں چلنا بہت ہو، بے سر و سامان ہوتے ہیں
اسلام عظمی
No comments:
Post a Comment