زخم یادوں کے نہیں مٹتے ہیں آسانی سے
داغ دھلتے ہیں کہاں بہتے ہوئے پانی سے
دیکھتی جاتی ہوں میلے کا تماشا چپ چاپ
کیا پتہ بول پڑے آنکھ ہی ویرانی سے
روشنی کا یہ خزانہ مری آنکھیں ہی نہ ہوں
میرے چہرے میں جھلکتا ہے کسی اور کا عکس
آئینہ دیکھ رہا ہے مجھے حیرانی سے
باندھ لی میں نے دعا رختِ سفر میں نیناں
ڈر جو لگتا ہے مجھے بے سر و سامانی سے
فرزانہ نیناں
No comments:
Post a Comment