جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی
مدتوں اپنے بدن سے تیری خوشبو آئی
میرے مکتوب کی تقدیر کہ اشکوں سے دُھلا
میرِی آواز کی قسمت کہ تجھے چھو آئی
اپنے سینے پہ لیے پھرتی ہیں ہر شخص کا بوجھ
یوں امڈ آئی کوئی یاد مری آنکھوں میں
چاندنی جیسے نہانے کو لبِ جو آئی
ہاں، نمازوں کا اثر دیکھ لیا پچھلی رات
میں ادھر گھر سے گیا تھا کہ ادھر تو آئی
مژدہ اے دل کسی پہلو تو قرار آ ہی گیا
منزِلِ دار کٹی ساعتِ گیسو آئی
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment