Friday, 29 March 2013

جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی

جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی
مدتوں اپنے بدن سے تیری خوشبو آئی
میرے مکتوب کی تقدیر کہ اشکوں سے دُھلا
میرِی آواز کی قسمت کہ تجھے چھو آئی
اپنے سینے پہ لیے پھرتی ہیں ہر شخص کا بوجھ
اب تو ان راہگزاروں میں میری خو آئی
یوں امڈ آئی کوئی یاد مری آنکھوں میں
چاندنی جیسے نہانے کو لبِ جو آئی
ہاں، نمازوں کا اثر دیکھ لیا پچھلی رات
میں ادھر گھر سے گیا تھا کہ ادھر تو آئی
مژدہ اے دل کسی پہلو تو قرار آ ہی گیا
منزِلِ دار کٹی ساعتِ گیسو آئی

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment