سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی
ملے ہیں زخم تِرے قُرب کی بہار سے بھی
متاعِ فقر بھی آئی نہ دستِ عجز کے ہاتھ
گریز پا ہی رہا، دولتِ وقار سے بھی
ہم اہل ِدل ہی نہ سمجھے، وفا کے منصب کو
ہوئی ہے ہم کو ندامت سِتم شعار سے بھی
لہو ہے قلب، تِرے تمکنت کے لہجے سے
عرق عرق ہے جبیں حرفِ انکسار سے بھی
چراغِ ظلمتِ شب کی مثال ہے ہر سوچ
ہمیں تو کچھ نہ ملا، صبحِ انتظار سے بھی
بُجھا نہ شعلہ کوئی کرب کے الاؤ کا
تِرے لبوں کے تبسم کے آبشار سے بھی
میں اسکی ذات سے مایوس ہوں، محال ہے یہ
اسے تو پیار ہے بے حد گناہگار سے بھی
یہ خواہشوں کی مسافت عذاب ہے احمدؔ
نکل کے دیکھ شبِ جسم کے حصار سے بھی
سید آل احمد
ملے ہیں زخم تِرے قُرب کی بہار سے بھی
متاعِ فقر بھی آئی نہ دستِ عجز کے ہاتھ
گریز پا ہی رہا، دولتِ وقار سے بھی
ہم اہل ِدل ہی نہ سمجھے، وفا کے منصب کو
ہوئی ہے ہم کو ندامت سِتم شعار سے بھی
لہو ہے قلب، تِرے تمکنت کے لہجے سے
عرق عرق ہے جبیں حرفِ انکسار سے بھی
چراغِ ظلمتِ شب کی مثال ہے ہر سوچ
ہمیں تو کچھ نہ ملا، صبحِ انتظار سے بھی
بُجھا نہ شعلہ کوئی کرب کے الاؤ کا
تِرے لبوں کے تبسم کے آبشار سے بھی
میں اسکی ذات سے مایوس ہوں، محال ہے یہ
اسے تو پیار ہے بے حد گناہگار سے بھی
یہ خواہشوں کی مسافت عذاب ہے احمدؔ
نکل کے دیکھ شبِ جسم کے حصار سے بھی
سید آل احمد
No comments:
Post a Comment