اب کے برس دستورِ سِتم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے
قاتل تھے مقتول ہوئے، جو صید تھے اب صیاد ہوئے
پہلے بھی خزاں میں باغ اُجڑے پر یُوں نہیں جیسے ابکے برس
سارے بُوٹے، پتہ پتہ، روِش روِش، برباد ہوئے
پہلے بھی طوافِ شمعِ وفا تھی، رسم محبت والوں کی
ہم تُم سے پہلے بھی یہاں منصُور ہوئے، فرہاد ہوئے
اِک گُل کے مُرجھانے پر کیا گُلشن میں کُہرام مچا
اِک چہرہ کُمہلا جانے سے کتنے دل ناشاد ہوئے
فیضؔ! نہ ہم یوسفؑ نہ کوئی یعقوبؑ جو ہم کو یاد کرے
اپنی کیا، کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے
فیض احمد فیض
قاتل تھے مقتول ہوئے، جو صید تھے اب صیاد ہوئے
پہلے بھی خزاں میں باغ اُجڑے پر یُوں نہیں جیسے ابکے برس
سارے بُوٹے، پتہ پتہ، روِش روِش، برباد ہوئے
پہلے بھی طوافِ شمعِ وفا تھی، رسم محبت والوں کی
ہم تُم سے پہلے بھی یہاں منصُور ہوئے، فرہاد ہوئے
اِک گُل کے مُرجھانے پر کیا گُلشن میں کُہرام مچا
اِک چہرہ کُمہلا جانے سے کتنے دل ناشاد ہوئے
فیضؔ! نہ ہم یوسفؑ نہ کوئی یعقوبؑ جو ہم کو یاد کرے
اپنی کیا، کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment