Thursday 28 March 2013

جمال اب تو یہی رہ گیا ہے پتہ اس کا

جمال اب تو یہی رہ گیا ہے پتہ اُس کا
بھلی سی شکل تھی اچھا سا نام تھا اُس کا
پھر ایک سایہ در و بام پر  اُتر آیا
دل و نگاہ میں پھر ذِکر چِھڑ گیا اُس کا
کسے خبر تھی کہ یہ دن بھی دیکھنا ہو گا
اب اعتبار بھی دل کو نہیں رہا اُس کا
جو میرے ذکر پر اب قہقہے لگاتا ہے
بِچھڑتے وقت کوئی حال دیکھتا اُس کا
مجھے تباہ کیا اور سب کی نظروں میں
وہ بے قصور رہا یہ کمال تھا اُس کا
سو کِس سے کیجئے ذکرِ نزاکتِ خدوخال
کوئی مِلا ہی نہیں صورتِ آشنا اُس کا
جو سایہ سایہ شب و روز میرے ساتھ رہا
گلی گلی میں پتہ پوچھتا پِھرا اُس کا
جمالؔ اُس نے تو ٹھانی تھی عمر بھر کے لیے
یہ چار روز میں کیا حال ہو گیا اُس کا

جمال احسانی

No comments:

Post a Comment