Saturday, 30 March 2013

کرتے ہو گلی کوچوں کو تاریک بھی خود ہی

کرتے ہو گلی کوچوں کو تارِیک بھی خود ہی
پھر روشنی کی بانٹتے ہو بِھیک بھی خود ہی
رسی جو نہیں کھنچتا ظالم کی کسی طور
آ جاتی ہے پھر سوچ میں تشکِیک بھی خود ہی
بِن بات جو وہ خود ہی بگڑ بیٹھا ہے ہم سے
اک روز وہ ہو جائے گا پھر ٹِھیک بھی خود ہی
ہوتا ہے وہ بیدار تو رہتا ہے کشیدہ
خوابوں میں چلا آتا ہے نزدِیک بھی خود ہی
آنکھیں ہوں کھلی اور ہو احساس بھی زندہ
ہو جاتی ہے پھر شعر کی تحرِیک بھی خود ہی
اک لفظ کی تعریف سے پتھر کو کیا موم
حل کر ہی لیا نکتۂ بارِیک بھی خود ہی
نازک سی کوئی بات کرو گے تو یہاں پر
بن جاؤ گے تم مرکزِ تضحِیک بھی خود ہی
اسلاف کا وِرثہ ہے سخن گوئی جو ہم تک
بس ہوتا چلا آیا ہے تملِیک بھی خود ہی

مرتضیٰ برلاس

No comments:

Post a Comment