گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے، گھر کا سناٹا کہتا ہے
اِس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے
اِک خواب نما بیداری میں جاتے ہوئے اس کو دیکھا تھا
اِحساس کی لہروں میں اب تک حیرت کا سفینہ بہتا ہے
پھر جسم کے منظرنامے میں سوئے ہوئے رنگ نہ جاگ اٹھیں
چھ دن تو بڑی سچائی سے سانسوں نے پیام رسانی کی
آرام کا دن ہے کس سے کہیں دل آج جو صدمے سہتا ہے
ہر عہد نے زندہ غزلوں کے کتنے ہی جہاں آباد کیے
پر تجھ کو دیکھ کے سوچتا ہوں اِک شعر ابھی تک رہتا ہے
غلام محمد قاصر
No comments:
Post a Comment