جو رَستہ بھی دل نے چُنا ہے
تیرے غم کی سمت کھلا ہے
پانی پر جو حرف لِکھا تھا
دیکھو کیسے ٹھہر گیا ہے
ڈھلتی شام کے سائے سائے
تُو ہے تیرا غم ہے کیا ہے
آگ بجھے تو مُدّت گُزری
آنکھوں میں کیا پھیل رہا ہے؟
ایک سوال مِلا تھا مجھ کو
میں نے تجھ کو مانگ لیا ہے
یوں لگتا ہے جیسے کوئی
مُجھ کو مسلسل دیکھ رہا ہے
شام کی اُگلی تھام کے سُورج
بھوکا پیاسا لوٹ رہا ہے
طشتِ فلک میں تارے بھر کر
چاند کِسے ملنے جاتا ہے
بارش کی آواز سے امجدؔ
شہر کا چہرہ کھل اُٹھا ہے
تیرے غم کی سمت کھلا ہے
پانی پر جو حرف لِکھا تھا
دیکھو کیسے ٹھہر گیا ہے
ڈھلتی شام کے سائے سائے
تُو ہے تیرا غم ہے کیا ہے
آگ بجھے تو مُدّت گُزری
آنکھوں میں کیا پھیل رہا ہے؟
ایک سوال مِلا تھا مجھ کو
میں نے تجھ کو مانگ لیا ہے
یوں لگتا ہے جیسے کوئی
مُجھ کو مسلسل دیکھ رہا ہے
شام کی اُگلی تھام کے سُورج
بھوکا پیاسا لوٹ رہا ہے
طشتِ فلک میں تارے بھر کر
چاند کِسے ملنے جاتا ہے
بارش کی آواز سے امجدؔ
شہر کا چہرہ کھل اُٹھا ہے
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment