لوگ پہچان نہیں پائیں گے چہرہ اپنا
اب نہ بدلے تو بدل جائے گا نقشہ اپنا
برق ایک ایک نشیمن کا پتہ جانتی ہے
اب کے پھر ڈھونڈ نکالے گی ٹھکانہ اپنا
طعنۂ دربدری دے مگر اتنا رہے دھیان
راستہ بھی تو بدل سکتے ہیں دریا اپنا
بول، اے بے سروسامانئ گلشن، کچھ بول
خلقتِ شہر طلب کرتی ہے حصہ اپنا
یہ بھی کب تک کہ ہر آفت کا سبب ہے کوئی اور
منزلیں خود بھی تو گُم کرتی ہیں رستہ اپنا
ہم کہاں اپنے سوا اور کو گردانتے ہیں
ہم نے لِکھا بھی تو لکھیں گے قصیدہ اپنا
اب نہ بدلے تو بدل جائے گا نقشہ اپنا
برق ایک ایک نشیمن کا پتہ جانتی ہے
اب کے پھر ڈھونڈ نکالے گی ٹھکانہ اپنا
طعنۂ دربدری دے مگر اتنا رہے دھیان
راستہ بھی تو بدل سکتے ہیں دریا اپنا
بول، اے بے سروسامانئ گلشن، کچھ بول
خلقتِ شہر طلب کرتی ہے حصہ اپنا
یہ بھی کب تک کہ ہر آفت کا سبب ہے کوئی اور
منزلیں خود بھی تو گُم کرتی ہیں رستہ اپنا
ہم کہاں اپنے سوا اور کو گردانتے ہیں
ہم نے لِکھا بھی تو لکھیں گے قصیدہ اپنا
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment