زلف کو صندلی جھونکا جو کبھی کھولے گا
جسم ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح ڈولے گا
بادشاہوں کی طرح دل پہ حکومت کر کے
وہ مجھے تاش کے پتوں کی طرح رولے گا
جنبش لب سے بھی ہوتا ہے عیاں سب مطلب
کسی برگد کی گھنی شاخ سے دل کا پنچھی
میری تنہائی کو دیکھے گا تو کچھ بولے گا
چاند پونم کا سرکتی ہوئی ناگن کی طرح
نیلگوں زہر مرے خون میں آ گھولے گا
اڑ گیا سوچ کا پنچھی بھی وہاں سے نیناںؔ
کوئی سنسان بنیرے پہ نہیں بولے گا
فرزانہ نیناں
No comments:
Post a Comment