Wednesday, 27 March 2013

رو لیجئے کہ پھر کوئی غم خوار ہو نہ ہو

رو لیجئے کہ پھر کوئی غمخوار ہو نہ ہو
ان آنسوؤں کا اور خریدار ہو نہ ہو
کچھ روز میں یہ زخم چراغوں سے جل بجھیں
کچھ روز میں یہ گرمئ بازار ہو نہ ہو
عجلت بہت ہے آپ کو جانے کی، جائیے
لوٹیں تو پھر یہ عشق کا آزار ہو نہ ہو
سو جائے تھک کے پچھلے پہر چشمِ انتظار
اور کیا خبر کہ بعد میں بیدار ہو نہ ہو
دل کو بہت غرورِ کشیدہ سری بھی ہے
پھر سامنے یہ سنگِ درِ یار ہو نہ ہو
اچھا ہوا کہ آج بچا لی متاعِ خواب
پھر جانے ایسی جرأتِ انکار ہو نہ ہو
ق
راہوں میں اس کی پھول ہمیشہ کھلے رہیں
قسمت میں اپنی گوشۂ گلزار ہو نہ ہو
وہ قصر اور اس کے کلس جاوداں رہیں
ہم کو نصیب سایۂ دیوار ہو نہ ہو
جب ہر روش پہ حسنِ گل و یاسمن ملے
پھر گلستاں میں نرگسِ بیمار ہو نہ ہو

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment