محبت کی گواہی، اپنے ہونے کی خبر لے جا
جِدھر وہ شخص رہتا ہے مُجھے اے دل اُدھر لے جا
تبسم سے حقیقی خال و خد ظاہر نہیں ہوتے
تعارف پھول کا درپیش ہے تو چشمِ تر لے جا
اندھیرے میں گیا وہ روشنی میں لوٹ آئے گا
اڑانوں، آسمانوں، آشیانوں کے لیے طائر
یہ پَر ٹوٹے ہوئے میرے، یہ معیارِ نظر لے جا
زمانوں کو اڑانیں برق کو رفتار دیتا تھا
مگر مجھ سے کہا ٹھہرے ہوئے شام و سحر لے جا
کوئی منہ پھیر لیتا ہے تو قاصرؔ اب شکایت کیا
تجھے کس نے کہا تھا آئینے کو توڑ کر لے جا
غلام محمد قاصر
No comments:
Post a Comment