Wednesday, 27 March 2013

عشق دریا ہے تو آئے لب ساحل آئے

عشق دریا ہے تو آئے لبِ ساحل آئے
موج کی طرح اٹھے اور اسے مل آئے
دل مسافر نہیں، مشتاقِ سفر ہے ایسا
ڈر ہی جائے جو سوالِ رہِ منزل آئے
ایسے اتری ہے چمن زار میں اک ساعتِ سبز
جیسے نقاشِ گُل و نقش گرِ گِل آئے
پُرسکوں ہے یہ بدن سرد سمندر کی طرح
ہاں، اگر سامنے کوئی مہِ کامل آئے
شہر دل والوں سے خالی تو نہیں ہے، مانا
کوئی اس عشقِ جہاں تاب کے قابل آئے
سخت مشکل ہے دل و جاں کو سنبھالے رکھنا
رو برو کوئی مسیحا نہیں، قاتل آئے
نیند میں گھنٹیاں بجتی ہیں، غبار اٹھتا ہے
جیسے اس دشت میں اک خواب کا محمل آئے
جس کی غفلت سے اٹھائے ہیں الم سینکڑوں بار
پھر اسی چشمِ فسوں ساز پہ یہ دل آئے
بات کرتے ہیں تو آواز جھلس جاتی ہے
کون ان شعلہ مزاجوں کے مقابل آئے
ہفت آئینہ تھا یہ خانۂ دنیا، لیکن
زندگی کرنے کو اکثر یہاں غافل آئے

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment