Saturday, 16 March 2013

وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں

وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں
 اس کا جمال اس کے سوا چاہیے ہمیں
 ہر لمحہ جی رہے ہیں دوا کے بغیر ہم
 چارہ گرو! تمہاری دعا چاہیے ہمیں
پھر دیکھیے جو حرف بھی نکلے زباں سے
 اک دن جو پوچھ بیٹھے کہ کیا چاہیے ہمیں
 جانا نہیں ہے گھر سے نکل کر کہیں، مگر
 ہر ماہ رُو کے گھر کا پتا چاہیے ہمیں
 مدت سے ہم کسی کو نہیں دے سکے فریب
 اے شہرِ التفات! وفا چاہیے ہمیں
 ہر آن آخری ہے مگر اس کے باوجود
 اس آن بھی یقینِ فنا چاہیے ہمیں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment