وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں
اس کا جمال اس کے سوا چاہیے ہمیں
ہر لمحہ جی رہے ہیں دوا کے بغیر ہم
چارہ گرو! تمہاری دعا چاہیے ہمیں
پھر دیکھیے جو حرف بھی نکلے زباں سے
جانا نہیں ہے گھر سے نکل کر کہیں، مگر
ہر ماہ رُو کے گھر کا پتا چاہیے ہمیں
مدت سے ہم کسی کو نہیں دے سکے فریب
اے شہرِ التفات! وفا چاہیے ہمیں
ہر آن آخری ہے مگر اس کے باوجود
اس آن بھی یقینِ فنا چاہیے ہمیں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment