Thursday, 30 December 2021

بہ مجبوری ہر اک رنج و محن لکھنا پڑا مجھ کو

بہ مجبوری ہر اک رنج و محن لکھنا پڑا مجھ کو

بنا کر خود کو موضوعِ سخن، لکھنا پڑا مجھ کو

زبانیں جن کی قینچی کی طرح چلتی تھیں شوہر پر

انہیں شیریں زباں، شیریں دہن لکھنا پڑا مجھ کو

ہر اک محفل میں جلووں کی جو رشوت پیش کرتی تھیں

وہ جیسی بھی تھیں، "جان انجمن" لکھنا پڑا مجھ کو

مِری مجبوریوں نے نازکی کا خون کر ڈالا

ہر اک گوبھی بدن کو "گلبدن" لکھنا پڑا مجھ کو

جب اک الہڑ بنی دلہن کسی بوسیدہ شوہر کی

تو اس کے سرخ جُوڑے کو "کفن" لکھنا پڑا مجھ کو

وہ جن کی عمر کی گھڑیاں نہایت سُست چلتی ہیں

سند سے ان کی پیدائش کا "سن" لکھنا پڑا مجھ کو

بسا اوقات حُرمت بھی قلم کی داؤ پر رکھ دی

لُٹیروں کو "محبانِ وطن" لکھنا پڑا مجھ کو

حقیقت یہ ہے وہ بچے نہ مجرم تھے، نہ قاتل تھے

تو سب کا قصۂ دار و رسن لکھنا پڑا مجھ کو

وہ بے ہنگم سی جن کو دیکھ کر میں توبہ کرتا تھا

بہ مجبوری انہیں "توبہ شکن" لکھنا پڑا مجھ کو

بہت مشکل تھا جن کو ڈھونڈنا میک اپ کے ملبے سے

سو اندازے سے ان کا "بانکپن" لکھنا پڑا مجھ کو


امیر الاسلام ہاشمی

No comments:

Post a Comment