شناخت
میں ایک آزاد وطن کی شہری ہوں
اپنے شہر گاؤں گلیوں کھیت کھلیانوں کے
سبھی رستوں کو جانتی
بِن دیکھے سب درختوں کو
ان کی خوشبو سے پہچان سکتی ہوں
اس مٹی کی قبروں میں
میرے آباء کا لمس شامل ہے
میں اس کی مہک اپنی رُوح میں محسوس کرتی ہوں
میرے آنگن میں اُترتے سب پرندے
اسی ہوا میں سانس لیتے ہیں جس میں میں جیتی ہوں
میں اپنے پرندوں اس مٹی اور ہوا کو چھوڑ کر
کیسے کہیں اور زندگی جی سکتی ہوں
میں خوفزدہ تو نہیں
مگر اب اکثر کچھ گُزرگاہوں سے گُزرتے ہوئے
اچانک مجھے روک کر مشینی آلے سے چیک کیا جاتا ہے
مشین میرے بدن میں کچھ تلاش کرتی ہے
میرے لبادے اور ہینڈ بیگ کو کھنگالا جاتا ہے
میرے ہینڈ بیگ میں ڈاکٹر کے چند نسخوں
ایک قلم گلابی رنگ کی لپ سٹک اور ایک قدیم سے
موبائل فون کے سوا
کچھ نہیں نکلتا
چند خونخوار کُتے مجھے اور میری سواری کو سُونگھتے ہیں
تب میں اپنے آپ سے بھی نظریں چُرا لیتی ہوں
اس تکلیف دہ عمل سے جب کچھ حاصل نہیں ہوتا
تو مجھے آگے جانے کی اجازت مل ہی جاتی ہے
میں خوفزدہ تو نہیں
مگر سوچتی ہوں
اپنے ہی وطن میں میری شناخت
اتنی مشکوک کیوں ہو گئی ہے؟
عالیہ مرزا
No comments:
Post a Comment