Thursday, 30 December 2021

جیون راگ ہم خواب بنیں ان آنکھوں کے

 جیون راگ


ہم خواب بنیں ان آنکھوں کے

جو تارِ بدن کو چُھو لیں تو

خواہش کی سیما سے آگے

سُر سنگم کے دربار لگیں

اور درباری کی لے اندر

کچھ دھیمے سے کچھ اونچے سے

جو گیت لبوں پر پھول بنیں

وہ خوشبو خوشبو مہکائیں

وہ آنکھیں جب جب ہنس دیں تو

ایمن کے راگ فضاؤں میں

اک وصل خوشی کی آہٹ پر

چوتھے اور پانچویں کالے میں

سنگت جو کریں تو جھوم اٹھیں

سب روپ سروپ کی رادھائیں

چرنوں کو چُھونے آ جائیں

وہ دیپک لمبی تانوں کا

پھیلے تو راتیں روشن ہوں

پانی میں آگ بھڑک اٹھے

جسموں کی تمازت جاگ اٹھے

جب خواب نگر کے تاروں سے

یہ گیان اور دھیان کریں باتیں

تو بھیرویں شانت بھرے من میں

ہر تال پہ نور سرور بڑھے

آشائیں پروں کو پھیلائیں

آفاق پہ آنکھیں اگ آئیں

جب دور سلگتے صحرا میں

پیلو جو ہجر سمیٹے تو

میرا کے ترسے ہونٹوں پر

گیتوں کی پپڑی جم جائے

حلقوم کا کانٹا ہو جائے

آوازیں بھاری ہو جائیں

ان آنکھوں سے بارش برسے

ملہار کے پنچم کو چھیڑے

تو اندر باہر دھل جائے

باگیشری برہا کے اندر

ہلچل سی ایک بپا کر دے

ہو لمبی رات جدائی کی

تاریک مناظر ہو جائیں

اور سمے کی نبصیں تھم جائیں

جب تان للت کی ٹوٹے تو

ان خواب سروں کی راکھ اڑے

آنکھیں ننداسی ہو جائیں


ارشد معراج

No comments:

Post a Comment