خط
جس خط کا جواب میں لکھ رہی تھیں
وہ خط ابھی تک موصول نہیں ہوا
جس نیلے قلم سے میرے الفاظ درج ہو رہے تھے
اس کی سیاہی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی
وہ سوال جن کے جواب
روز سونے سے پہلے
میں دیتی رہی رہی ہوں
وہ سوال اب تک پیدا نہ ہوئے
وہ خواب
جو آنکھ بند کرنے پہ غائب ہو جاتے
آنکھیں ادھ کھلی رکھنے کا باعث بنے
مجھے ان نمازوں کی سزا دی گئی
جن کے لیے میں ہمیشہ نابالغ رہی
مجھے رہائی تب ملی
جب عمرِ قید کی سزا سنائی گئی
کرن رباب
No comments:
Post a Comment