وہ جو میری سمت تھا گامزن وہ خوشی کا لمحہ کدھر گیا
مجھے کیوں یہ لگنے لگا ہے اب کہ مِری دعا سے اثر گیا
کبھی رشکِ رونقِ ہر چمن، کبھی حسنِ توبہ شکن کہیں
تِرے قرب میں، مِرے ہم سخن! مِرا رنگ روپ نکھر گیا
کبھی یوں بھی گزرے تھے رات دن، تُو نہ میرے بِن میں نہ تیرے بِن
یہ بھی وقت کا ہی تھا فیصلہ کہ ہر ایک اپنی ڈگر گیا
نہ وہ ہجر لمحوں کی چشمِ نم نہ کسی کے غم میں اداس ہم
وہ جو ذہن و دل پہ سوار تھا وہ نشہ تو کب کا اُتر گیا
رہا خوف سا مجھے عمر بھر، سنی میں نے سب کی اگر مگر
لگی منزلوں کی وہ جستجو، رہِ پُر خطر کا بھی ڈر گیا
وہ تو پتھروں کو تراش کر انہیں کر دے مثلِ گہر نما
ہوئی خوش جمال ہر ایک شے، جہاں اس کا حسنِ نظر گیا
ردا خان
No comments:
Post a Comment