Thursday, 30 December 2021

تپش گلزار تک پہنچی لہو دیوار تک آیا

 تپش گلزار تک پہنچی لہو دیوار تک آیا

چراغ خود کلامی کا دھواں بازار تک آیا

ہوا کاغذ مصور ایک پیغام زبانی سے

سخن تصویر تک پہنچا ہنر پرکار تک آیا

عبث تاریک رستے کو تہِ خورشیدِ جاں رکھا

یہی تارِ نفس آزار سے پیکار تک آیا

محبت کا بھنور اپنا شکایت کی جہت اپنی

وہ محور دوسرا تھا جو مِرے پندار تک آیا

عجب چہرہ سفر کا تھا ہوس کے زرد پانی میں

قدم دلدل سے نکلا تو خط رفتار تک آیا

پھر اس کے بعد طنبور و علم نا معتبر ٹھہرے

کوئی قاصد نہ اس شام شکست آثار تک آیا


اختر حسین جعفری

No comments:

Post a Comment