جوہرِ عشق مِری خاک میں رکھا ہوا ہے
اک زمیں زاد کو افلاک میں رکھا ہوا ہے
موجۂ اشک بہانے میں رہے گا ناکام
خواب جو دیدۂ نمناک میں رکھا ہوا ہے
اک تب و تاب نے ماحول بدل ڈالا ہے
ایک موتی خس و خاشاک میں رکھا ہوا ہے
آپ بھی کچھ تو کریں اپنے اثاثے ظاہر
میں نے تو خواب بھی املاک میں رکھا ہوا ہے
جس میں حالات کی لہروں نے سما جانا ہے
وہ سمندر تِرے تیراک میں رکھا ہوا ہے
جسم کا رنگ بھی ہے قوسِ قزح میں شامل
آپ کا حسن بھی پوشاک میں رکھا ہوا ہے
جسم کے روگ پہ آزردہ رہا کرتا ہے
جو سلامت دلِ صد چاک میں رکھا ہوا ہے
اتنی خوش فہمیاں موجود ہیں لیکن اب تک
ایک اندیشہ بھی ادراک میں رکھا ہوا ہے
زخم پر زخم یہی سوچ کے کھائے جاذب
رحم شاید دلِ سفاک میں رکھا ہوا ہے
اکرم جاذب
No comments:
Post a Comment