تخلیق
کمرے کا یخ بستہ موسم
میرے اندر کی گرمی کو چاٹ چکا تھا
آنکھوں کی جھیلوں میں گویا
بچھڑی ہوئی یادوں کی کائی جمی ہوئی تھی
بستر پر اک بے حس اور انجانی سی چپ
گرد کی صورت پڑی ہوئی تھی
روح کے آنگن میں پیڑوں کی
سوکھی شاخیں دھند میں گم تھیں
اور خیالوں کے سرچشمے خشک پڑے تھے
ایسے میں اک دستک ابھری
کھڑکی کے پٹ کھول کے میں نے باہر دیکھا
درد اچانک جاگ اٹھا تھا
ایک سنہرے اور تازہ احساس کا آنچل سر پر ڈالے
دھوپ کھڑی تھی
مجھ سے رستا مانگ رہی تھی
میری روح کی تاریکی میں
اک مصرع بیدار ہوا تھا
رخسانہ صبا
No comments:
Post a Comment