شام ڈھلے تو
میلوں پھیلی خوشبو خوشبو گھاس میں رستے
آپ بھٹکنے لگتے ہیں
زُلف کُھلے تو
مانگ کا صندل
شوق طلب میں
آپ سلگنے لگتا ہے
شام ڈھلے تو
زلف کھلے تو
لفظو! ان رستوں پر جگنو بن کر اڑنا
راہ دکھانا
دن نکلے تو
تازہ دھوپ کی چمکیلی پوشاک پہن کر
میرے ساتھ گلی کوچوں میں
لفظو! منزل منزل چلنا
ہم دنیا کو حرف و صدا کی روشن شکلیں
پھول سے تازہ
عہد اور پیماں دکھلائیں گے
دیواروں سے گلزاروں تک
تنہائی کی فصل اگی ہے
دن نکلے تو درد رفاقت
ہم سب میں تقسیم کریں گے
اختر حسین جعفری
No comments:
Post a Comment