Wednesday 29 December 2021

شام ڈھلے تو زلف کھلے تو

 شام ڈھلے تو

میلوں پھیلی خوشبو خوشبو گھاس میں رستے

آپ بھٹکنے لگتے ہیں

زُلف کُھلے تو

مانگ کا صندل 

شوق طلب میں

آپ سلگنے لگتا ہے

شام ڈھلے تو

زلف کھلے تو 

لفظو! ان رستوں پر جگنو بن کر اڑنا

راہ دکھانا

دن نکلے تو 

تازہ دھوپ کی چمکیلی پوشاک پہن کر

میرے ساتھ گلی کوچوں میں

لفظو! منزل منزل چلنا

ہم دنیا کو حرف و صدا کی روشن شکلیں

پھول سے تازہ 

عہد اور پیماں دکھلائیں گے

دیواروں سے گلزاروں تک

تنہائی کی فصل اگی ہے

دن نکلے تو درد رفاقت

ہم سب میں تقسیم کریں گے


اختر حسین جعفری

No comments:

Post a Comment