کہاں ہو تم
ہم نے مل کر
محبتوں کے سمندروں پہ سفر کیا ہے
ہر ایک خواہش کے ہر جزیرے پہ
ہم رکے ہیں
گداز جذبوں کی وادیوں میں پڑاؤ ڈالے
ذرا تھمے ہیں
ہم نے چھانی ہے گرد خوابوں کے ہر نگر کی
برستے ساون کی بوند بوند سے
بھیگی شامیں کشید کی ہیں
کہ چاند راتوں میں وصل گھڑیاں بھی عید کی ہیں
تمہیں خبر ہے
کہ خوشبوؤں نے تمہارے آنچل سے بھیک لی ہے
جگنو اکثر تمہاری راتوں میں جگمگاتے
تمہیں ستاتے
تتلیاں بھی تمہارے بالوں میں چھپ سی جاتیں
میں کیا بتاؤں، میں کیا سناؤں
میں کب سے تنہا، اکیلے رستوں پہ گامزن ہوں
ہر ایک حسرت کے ہر جزیرے پہ میں رکا ہوں
درد جذبوں کی وادیوں میں پڑاؤ ڈالے
ذرا تھما ہوں
گرد چھانی ہے یاد شہروں کی
ہر ایک ساون کی بوند بوند سے
میں کر چکا ہوں بھیگی شامیں کشید بھی
چاند راتوں میں ہجر گھڑیاں بھی عید کر لیں
خوشبوؤں سے، جگنوؤں سے، تتلیوں سے
تمہارے بارے میں پوچھتا ہوں
سب ہی چپ ہیں
تمہارا کچھ بھی پتا نہیں ہے
کہاں ہو تم
بلال اسلم
No comments:
Post a Comment