Thursday 30 December 2021

تمہارا کچھ بھی پتا نہیں ہے کہاں ہو تم

 کہاں ہو تم


ہم نے مل کر

محبتوں کے سمندروں پہ سفر کیا ہے

ہر ایک خواہش کے ہر جزیرے پہ

ہم رکے ہیں

گداز جذبوں کی وادیوں میں پڑاؤ ڈالے

ذرا تھمے ہیں

ہم نے چھانی ہے گرد خوابوں کے ہر نگر کی

برستے ساون کی بوند بوند سے

بھیگی شامیں کشید کی ہیں

کہ چاند راتوں میں وصل گھڑیاں بھی عید کی ہیں

تمہیں خبر ہے

کہ خوشبوؤں نے تمہارے آنچل سے بھیک لی ہے

جگنو اکثر تمہاری راتوں میں جگمگاتے

تمہیں ستاتے

تتلیاں بھی تمہارے بالوں میں چھپ سی جاتیں

میں کیا بتاؤں، میں کیا سناؤں

میں کب سے تنہا، اکیلے رستوں پہ گامزن ہوں

ہر ایک حسرت کے ہر جزیرے پہ میں رکا ہوں

درد جذبوں کی وادیوں میں پڑاؤ ڈالے

ذرا تھما ہوں

گرد چھانی ہے یاد شہروں کی

ہر ایک ساون کی بوند بوند سے

میں کر چکا ہوں بھیگی شامیں کشید بھی

چاند راتوں میں ہجر گھڑیاں بھی عید کر لیں

خوشبوؤں سے، جگنوؤں سے، تتلیوں سے

تمہارے بارے میں پوچھتا ہوں

سب ہی چپ ہیں

تمہارا کچھ بھی پتا نہیں ہے

کہاں ہو تم


بلال اسلم

No comments:

Post a Comment