Wednesday, 29 December 2021

بچھڑ کے تجھ سے ابھی تک سنبھل نہیں پایا

 بچھڑ کے تجھ سے ابھی تک سنبھل نہیں پایا

دراصل، میں تِرے دُکھ سے نکل نہیں پایا

بجھا دئیے ہیں دِیے اپنی آرزوؤں کے

کہ میں ہواؤں کے رخ کو بدل نہیں پایا

جو بات بات پہ آنکھوں میں پھیل جاتے ہیں

یہ اشک وہ ہیں، جنہیں میں نِگل نہیں پایا

مِرا تو حال ہمیشہ سے ایک جیسا ہے

ملا نہ آج بھی مجھ کو جو کل نہیں پایا

میں سوچتا ہوں تِرا چاند کیسے نکلے گا

کئی دنوں سے تو سورج نکل نہیں پایا

جسے یہ ضد ہے کہ مجھ کو اجاڑ دینا ہے

وہ حادثہ کسی صورت بھی ٹل نہیں پایا

میں روشنی کے لیے اور کیا جلاؤں گا

یہ دل دیا ہے، اگر یہ بھی جل نہیں پایا

بڑا عجیب سفر تھا، جو طے کیا میں نے

پھر اس کے بعد میں پیروں پہ چل نہیں پایا

تمام عمر مِری کوششوں میں گزری ہے

تمام عمر مسائل کا حل نہیں پایا


یوسف مثالی

No comments:

Post a Comment