ایک سرگوشی میں اپنی بات کہہ جاتا ہے کون
پاس جب کوئی نہیں تو پاس آ جاتا ہے کون
ایک ویراں شہر کو آباد کر جاتا ہے کون
اک دل ناشاد کو یوں شاد کر جاتا ہے کون
تنگ کر دیتی ہے حسرت آرزوؤں کا حصار
اس حصار آرزو میں پھر سما جاتا ہے کون
چھین کر کل اختیار آرزو احساس سے
ایک شہر بے بسی آباد کر جاتا ہے کون
لاکھ جگنو جھلملاتے ہوں اندھیری رات میں
چاند بن کر پھر تصور میں ابھر جاتا ہے کون
بھیج دیتا ہے شرر کچھ روشنی کے نام پر
ذرے ذرے میں تپش بن کر بکھر جاتا ہے کون
سلمیٰ حجاب
No comments:
Post a Comment