ہم کو راہِ عاشقی میں زندگی کا غم نہ تھا
مرحلہ در مرحلہ غمِ عاشقی ہی کم نہ تھا
دھیرے دھیرے سیکھ لی ہم نے نگاہوں کی زباں
ان کا اندازِ تکلم بھی بہت مبہم نہ تھا
شہر کا عالم کہ جیسے سب یہاں پتھر کے ہوں
خون انساں بہہ رہا تھا اور کسی کو غم نہ تھا
کیوں چرا لیتے ہیں نظریں آتے جاتے لوگ اب
مے کدے کا ساقیا! پہلے تو یہ عالم نہ تھا
آستانوں پر جبیں سائی مِرا شیوہ نہیں
ماسوا تیرے کسی در پر یہ ماتھا خم نہ تھا
معجزہ تھا آپ کا ہاتھوں کو میرے تھامنا
پھر تو جیسے زندگی میں کوئی پیچ و خم نہ تھا
فرزانہ اعجاز
No comments:
Post a Comment