Friday 31 December 2021

بنائی نظم بنی پھر اس نظم کے حصے جوڑے

 بُنائی


میں نے اپنا ذہن اُدھیڑا

ایک خیال کا لمبا سُوتر سیدھا کر کے

قوسِ قزح کے رنگ لگائے

اور لپیٹا

اس کے جسم کا ناپ لیا

امیدوں کی عینک پہنی

ایک سنہری جذبے کی باریک سلاخیں پکڑیں

نظم بُنی

پھر اس نظم کے حصے جوڑے

گانٹھوں سے نکلے مایوسی کے دھاگوں کو کاٹا

میٹھے احساسات کے پانی سے دھویا

شعروں کے باغیچے گھوم کے تازہ لفظ چُنے

سات سُروں کی چاندی کے اوراق لیے

اور زمستاں میں اک سندر لڑکی کو

نرم ملائم نظم کا تحفہ پیش کیا

اس نے تحفہ کھولا

میں نے پہنایا

پہنانے کے بعد مجھے محسوس ہوا

اس سیارے پر وہ واحد لڑکی ہے

جس پہ نظم بہت جچتی ہے


شعیب کیانی

No comments:

Post a Comment