Tuesday 28 December 2021

مالی اداس ہے نہ یہ گلشن اداس ہے

 مالی اداس ہے نہ یہ گلشن اداس ہے

آندھی میں صرف ایک نشیمن اداس ہے

جمنا کے تیر بجتی ہے نیرو کی بانسری

رانجھے کا دیش ہیر کا مدھوبن اداس ہے

مجھ کو سکھی کا امتحاں لینا تھا لے لیا

میری بلا سے گر مِرا دامن اداس ہے

محلوں میں رہنے والے ذرا ہوشیار باش

محلوں کی سمت دیکھ کے نِردھن اداس ہے

اب اے لٹے مسافرو!! معلوم تو کرو

رہبر کو کیا ہوا ہے جو رہزن اداس ہے

پیروں کی دھول ماتھے کا چندن بنی تو کیوں

بس یہ ہی سوچ کر تو برہمن اداس ہے

بد شکل اقتدار کو بد شکل کیوں کہا

دربارِ عدل میں بھی یہ درپن اداس ہے

امبر سے کہہ دو بادلوں کو اب رہا کرے

جھولوں کی رُت ہے بہنوں کا آنگن اداس ہے


سردار پنچھی

کرنیل سنگھ

No comments:

Post a Comment