Tuesday 28 December 2021

چہروں پہ کھلی دھوپ سجا کر جو گیا ہے

 چہروں پہ کھلی دھوپ سجا کر جو گیا ہے

اب شہر میں سورج بھی اسے ڈھونڈ رہا ہے

میں خوش ہوں بہت کانچ کی پوشاک پہن کر

پتھر سے جو ٹکرائی ہے وہ میری صدا ہے

وہ شخص جو آئینہ تھا چہروں کے جہاں میں

بکھرا تو کسی سے بھی سمیٹا نہ گیا ہے

گھر اس کا ہے دروازہ بھی دستک بھی اسی کی

آواز کے رشتوں میں وہی شہر دعا ہے

ہاتھ اس کا ہر اک سوچ مِری تھام رہا ہے

وہ شخص مِری ذات میں مجھ سے بھی بڑا ہے

اک ابر کا ٹکڑا جو تِری یاد کا گزرا

احساس کا سُوکھا ہوا جنگل بھی ہرا ہے

شیشے کا کوئی گھر تھا نہ دل کی کوئی آواز

پھر کیوں یہ سرِ راہ چھناکا سا ہوا ہے


تسنیم حسن

No comments:

Post a Comment