Wednesday 29 December 2021

کوئی پوچھے تو اس دوانے سے

 کوئی پوچھے تو اس دِوانے سے

عشق بڑھتا ہے آزمانے سے

اس کی یادیں ہیں درد کا درماں

درد بڑھتا ہے بُھول جانے سے

کوئی صُورت نکال، مِلنے کی

خواب ہی میں کسی بہانے سے

تیری یادوں سے گھر چمکتا ہے

روشنی ہے یہ دل جلانے سے

دامنِ یار پر، کہ آنکھوں میں

کام اشکوں کو ہے ٹھکانے سے

ہیں تمہارے نئے نئے سپنے

اور مِرے خواب کچھ پرانے سے

اب ہٹاؤ بھی جھوٹ کا پہرہ

سچ نکالو ذرا خزانے سے

کوئی دو چار دن کی بات نہیں

چاہتا ہوں تجھے زمانے سے

شاہ کی جستجو میں دیوانے

باز آئے نہ زخم کھانے سے


شہاب الدین شاہ

No comments:

Post a Comment