ہر ہاتھ میں بندوق ہے، ہر نظر تلوار🗡 ہے
آج تو سارے کا سارا شہر ہی خونخوار ہے
اترا ہوا ہے خون جو ہر ایک شخص کی آنکھ میں
کس سے جا کے پوچھوں میں کون میرا گنہگار ہے
خون میرا جو مل گیا ہے، تیرے شہر کی خاک میں
کُچلا بھی، روندا بھی ہے، یہ تماشہ سرِ بازار ہے
روح بھی میری جل گئی میرے جسم کے ساتھ ہی
نہ ہی میری ارتھی اٹھی، نہ قبر ہے، نہ مزار ہے
دُور میرے ملک میں، چھوٹے سے ایک گاؤں میں
میری ماں اور بہن کو اب بھی میرا انتظار ہے
کہہ کے مجھ کو لا مذہب، تم نے جو میری جان لی
اسلام کا تو دوسرا نام، امن و ایثار ہے
کس کس کے ہاتھ پہ کروں تلاش میں اپنا لہو
میرا منصف تو ہے خدا، جو تیرا بھی پروردگار ہے
فاروق طاہر
No comments:
Post a Comment