Friday, 31 December 2021

کلر لگا دیوار کو کہہ جعفر اب کیا کیجئے

 در صفت پیری گوید


کلّر لگا دیوار کو کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

خطرہ ہوا آثار کو کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

چھاؤنی پرانی ہو گئی کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

ہو کر پرانی جھڑ گئی کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

اینٹیں پرانی گِھس چلیں، ماٹی تمامی رس چلی

کیا دوس ہے معمار کو کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

تم تو پکائے گلگلے، وہ سڑ کے ہوئے ہیں پلپلے

کیونکر چلوں سسرال کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

برتن ہوا ہے جھوجرا، لاگا نکلنے کھوجرا

کیا میہنا کمہار کو کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

یہ راہ اب باریک ہے، یہ رات بھی تاریک ہے

چلنا پڑا بازار کو کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

سب کو اس پُل پر گزر، بِن بوجھ کو اب کیا خطر

تَیں تو اٹھایا بار کو کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

جب پُل اتر کر جاؤ گے، تب کیا بھروسا پاؤ گے

نا تو جھٹکو گے نار کو کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ


جعفر زٹلی

No comments:

Post a Comment