جانے ہمسر سے بات کرتا ہے
کوئی اندر سے بات کرتا ہے
ظلم کی ایک عمر ہوتی ہے
خون خنجر سے بات کرتا ہے
آؤ، ساتوں ہی مل کے آ جاؤ
غم سمندر سے بات کرتا ہے
آؤ، مل کر خدا کو یاد کریں
چرچ، مندر سے بات کرتا ہے
حق سے تم بھی ذرا شناس رہو
دل سخنور سے بات کرتا ہے
میں کسی کا کبھی ہوا ہی نہیں
زر سکندر سے بات کرتا ہے
جتنے انساں، خدا بھی اتنے ہیں
دور حاضر سے بات کرتا ہے
شہاب الدین شاہ
No comments:
Post a Comment