نہ خود کے، نہ رب کے، نہ تیرے، نہ میرے
یہ حاکم، سیاسی، یہ رہبر، وڈیرے
یہ مسند نشیں، چور، ڈاکو، لٹیرے
نہ خود کے نہ رب کے نہ تیرے نہ میرے
یہ قوموں کے مجرم یہ نسلوں کے قاتل
یہ زاغ و زغن اور گدھوں کے جنگل
یہ ملت کے مخبر یہ غنڈوں کے راہب
یہ کچھووں، بھِڑوں اور سانپوں کے چنگل
یہ ہٹلر، ہلاکو کے خونی حواری
یہ فکر و شعور اور فردا کے مقتل
سنو اپنی شرم و حیا بیچتے ہیں
وطن بیچتے ہیں، بقاء بیچتے ہیں
یہ سرکس کے شو کے کرائے کے ٹٹّو
تماشینیوں پر انا بیچتے ہیں
یہ ہیں میر جعفر یہ ہیں میر صادق
یہ اپنا ہر عہد وفا بیچتے ہیں
یہ آنکھوں کے اندھے، یہ کانوں سے بہرے
یہ جوکر، جواری، مداری، سپیرے
نہ خود کے نہ رب کے نہ تیرے نہ میرے
یہ شاعر، صحافی، ادیب و مفکر
یہ ملّا ،یہ صوفی ،یہ ناقد ،یہ ذاکر
یہ بہروپیے پیر و مرشد، ملنگ
یہ خوابی خیالی شیوخ و اکابر
قلم بیچتے ہیں، دِیا بیچتے ہیں
نبی بیچتے ہیں، خدا بیچتے ہیں
سپیکر سےاٹھتا ہے نفرت کا نعرہ
گلی میں فرشتے قضا بیچتے ہیں
مزاروں پہ ہوتے ہیں مُردوں کو سجدے
مزاروں پہ زندہ شفا بیچتے ہیں
یہ نعروں کے غازی، یہ بانگوں کے جامی
غباروں میں بھر بھر ہوا بیچتے ہیں
یہ بے فیض موسم، سیہ گھپ اندھیرے
یہ بے موسمی گل،یہ بے سُکھ سویرے
نہ خود کے نہ رب کے نہ تیرے نہ میرے
یہ حسب و نسب اور مسند کے جھگڑے
یہ زر، زن، زمیں، کاٹھ و قد، جد، کے جھگڑے
بنام سیاست، قبیلوں میں جنگیں
یہ سکھ، ہندو، مسلم، یہ سرحد کے جھگڑے
یہ روشن خیالی کا ننگا تمدن
یہ لوگوں میں زیر و زبر شد کے جھگڑے
یہ ایوان بالا، یہ وزراء کے مسکن
یہ مے، رقص ،مینا، سرنگی، چھنن چھن
یہ حِرص و ہوس اور وحشت کے رسیا
غریبوں کے خوں سے تر ان کے ہیں دامن
یہ قاضی کی کرسی، یہ وکلاء کے حجرے
یہ شاہوں، رئیسوں کے تاریک آئین
یہ تھانہ کچہری عدالت کٹہرے
دلالوں کی منڈی، طوائف کے ڈیرے
نہ خود کے نہ رب کے نہ تیرے نہ میرے
سیف خان
No comments:
Post a Comment