Thursday 30 December 2021

جس سمت مری خاک لیے اہل ہنر جائیں

 جس سمت مِری خاک لیے اہلِ ہنر جائیں

واں کوزے بصد بغض و حسد ٹوٹیں بکھر جائیں

ہر سمت یہی عالمِ آزردگی ہے دوست

وحشت کدۂ غم سے اٹھیں بھی تو کِدھر جائیں

وہ شمعِ فروزاں سے بھی کئی درجہ حسیں ہے

پروانے اسے دیکھیں تو حیرت سے ہی مر جائیں

یہ کیا کہ سرِ بزم کِیا شکوۂ بیداد

ہم اتنے بُرے ہیں تو دعا کیجئے مر جائیں

تفریق سے پہلے تھی ہر اک جنس میں رعنائی

حورانِ چمن چاہیں تو کانٹے بھی نکھر جائیں

میں اپنا جنوں قیس کو سونپ آیا ہوں واللہ

اب آپ بھی اس منصبِ لیلیٰ سے اتر جائیں

آساں نہیں دانش مرضِ عشق کی تدبیر

بیمارِ کہن لمسِ مسیحا سے بھی ڈر جائیں


دانش نذیر دانی

No comments:

Post a Comment