Friday 31 December 2021

یہ وحشت یونہی بے معنی نہیں ہے

یہ وحشت یونہی بے معنی نہیں ہے

کہ ساتھ اس کی نگہبانی نہیں ہے

اسے چاہا تھا جس شدت سے تُو نے

وہ بچھڑا ہے تو حیرانی نہیں ہے

سمندر ہے میری پلکوں کے نیچے

وہ کہتا ہے؛ یہاں پانی نہیں ہے

میری وحشت سے ہے آباد صحرا

میری راہوں میں ویرانی نہیں ہے

قیامت آئی تھی چہرہ بدل کر

مکمل تُو نے پہچانی نہیں ہے

مسلسل پڑھ رہی ہوں زیست تجھ کو

فقط اوراق گردانی نہیں ہے

تیری یادیں میرا رخت سفر ہیں

سفر میں اب پریشانی نہیں ہے

سنبھل کر خرچ کر آنکھوں سے تارا

سفر لمبا ہے، اور پانی نہیں ہے


تارا اقبال

No comments:

Post a Comment