ٹوٹ کر پھر سے بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
اس کی دہلیز پہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
دیکھ کر آپ کی زر پاشی و ضو افشانی
آپ کے دل میں اُتر جانے کو جی چاہتا ہے
وادئ حسن میں جی لگتا نہیں ہے میرا
دوستو اس کے نگر جانے کو جی چاہتا ہے
غمِ جاناں ہے ،غمِ دوراں ہے اور غمِ مرگ
بول! کس غم میں اُتر جانے کو جی چاہتا ہے
رنج و غم یا خوشی کے پل ہی نہیں بسمل جی
اس کے ہمراہ تو مر جانے کو جی چاہتا ہے
مرتضیٰ بسمل
No comments:
Post a Comment