Tuesday, 28 December 2021

جلتے ہوئے جنگل سے گزرنا تھا ہمیں بھی

 جلتے ہوئے جنگل سے گزرنا تھا ہمیں بھی

پھر برف کے صحرا میں ٹھہرنا تھا ہمیں بھی

معیار نوازی میں کہاں اس کو سکوں تھا

اس شوخ کی نظروں سے اترنا تھا ہمیں بھی

جاں بخش تھا پل بھر کے لیے لمس کسی کا

پھر کرب کے دریا میں اترنا تھا ہمیں بھی

یاروں کی نظر ہی میں نہ تھے پنکھ ہمارے

خود اپنی اڑانوں کو کترنا تھا ہمیں بھی

وہ شہد میں ڈوبا ہوا لہجہ، وہ تخاطب

اخلاص کے وہ رنگ کہ ڈرنا تھا ہمیں بھی

یاد آئے جو قدروں کے مہکتے ہوئے گلبن

چاندی کے حصاروں سے ابھرنا تھا ہمیں بھی

سونے کے ہنڈولے میں وہ خوش پوش مگن تھا

موسم بھی سہانا تھا، سنورنا تھا ہمیں بھی

ہر پھول پہ اس شخص کو پتھر تھے چلانے

اشکوں سے ہر اک برگ کو بھرنا تھا ہمیں بھی

اس کو تھا بہت ناز خد و خال پہ عنبر

اک روز تہِ خاک بکھرنا تھا ہمیں بھی


عنبر بہرائچی

No comments:

Post a Comment