تخلیق کار اپنی کہانی سے مر گئے
آنکھوں کے خواب آنکھ کے پانی سے مر گئے
کچھ پھول تھے جو کھا گئے بھنوروں کا بانکپن
کچھ سانپ تھے جو رات کی رانی سے مر گئے
چڑیا تھی جس نے باز کو گھائل کئے رکھا
دریا تھے جو ندی کی روانی سے مر گئے
تیرے ہوئے تو ایک زمانہ خفا ہوا
ہم بے نشان لوگ نشانی سے مر گئے
یہ لوگ تیری باتوں کے مرہم کو آئے تھے
جو لوگ تیری زہر فشانی سے مر گئے
دیوار و در تو مل گئے چاہت نہیں ملی
گاؤں کے لوگ نقل مکانی سے مر گئے
مضبوط لوگ ٹوٹ کے طوفان بن گئے
جو سنگ دل تھے اشک فشانی سے مر گئے
خاموشیوں میں گوندھے گئے تھے ہمارے من
ہم لوگ بدر شعلہ بیانی سے مر گئے
نعمان بدر
No comments:
Post a Comment