Friday, 31 December 2021

تخلیق کار اپنی کہانی سے مر گئے

تخلیق کار اپنی کہانی سے مر گئے

آنکھوں کے خواب آنکھ کے پانی سے مر گئے

کچھ پھول تھے جو کھا گئے بھنوروں کا بانکپن

کچھ سانپ تھے جو رات کی رانی سے مر گئے

چڑیا تھی جس نے باز کو گھائل کئے رکھا

دریا تھے جو ندی کی روانی سے مر گئے

تیرے ہوئے تو ایک زمانہ خفا ہوا

ہم بے نشان لوگ نشانی سے مر گئے

یہ لوگ تیری باتوں کے مرہم کو آئے تھے

جو لوگ تیری زہر فشانی سے مر گئے

دیوار و در تو مل گئے چاہت نہیں ملی

گاؤں کے لوگ نقل مکانی سے مر گئے

مضبوط لوگ ٹوٹ کے طوفان بن گئے

جو سنگ دل تھے اشک فشانی سے مر گئے

خاموشیوں میں گوندھے گئے تھے ہمارے من

ہم لوگ بدر شعلہ بیانی سے مر گئے


نعمان بدر

No comments:

Post a Comment