Tuesday 28 December 2021

سکون ذات وقف انتشار کر لیا گیا

 سکونِ ذات وقفِ انتشار کر لیا گیا

غضب ہوا کہ دل کا اعتبار کر لیا گیا

قدم قدم ملے جو آبلے رہِ حیات میں

تو آنسوؤں کو مثلِ آبشار کر لیا گیا

ملا فریب و مکر سے بھی کب وہ حیلہ جو مگر

لباس سادگی کا داغدار کر لیا گیا

نکیر نے مدد بڑی حساب رکھ کے کی مِری

گُنہ تمام عمر بے شمار کر لیا گیا

گواہ عدلیہ ثبوت حاشیوں پہ آ گئے

حکایتوں پہ ایسے اعتبار کر لیا گیا

زبان حال منتخب ہوئی بیان درد کو

وجود آپ اپنا تار تار کر لیا گیا

جو ایک جام فرحت حیات کی امید تھا

ستم یہ ہے کہ وہ بھی کل پکار کر لیا گیا


فرحت رضوی

No comments:

Post a Comment