Friday, 31 December 2021

جھیل کی تلچھٹ میں بیٹھی کسمساتی ریت ہوں

 جھیل کی تلچھٹ میں بیٹھی کسمساتی ریت ہوں

روشنی ہو جاؤں گا پھر کائناتی ریت ہوں

پیش خیمہ ہوں کسی طوفانِ خشم آلود کا

نقرئی جملہ افق کو گدگداتی ریت ہوں

آفرینش نے مجھے کوٹا تھا کاری ضرب سے

مجھ کو اڑنا ہے ابد تک کھنکھناتی ریت ہوں

اے خدائے آہ و گریہ! ابر وحشت تھام لے

میں وقوفِ نیم شب میں گڑگڑاتی ریت ہوں

کیسے کیسے آسمانوں سے تنوع کر کے میں

آب زمیں کو جھیلتا ہوں بے ثباتی ریت ہوں

دیکھ اے شیریں دہن! یہ تلملاتے لب تِرے

میرے ہونٹوں سے ملے کہتے رجھاتی ریت ہوں

مجھ میں رہتا ہے مِرا اپنا تنفس کارگر

خود ہی اپنی ریت کو میں آزماتی ریت ہوں

دیکھ لے مجھ کو نظر بھر کر یہ چرخِ بے پناہ

عارضِ دشتِ زمن پر پیچ کھاتی ریت ہوں


شعیب افضال

No comments:

Post a Comment