آہ بر لب، غم بہ دل، نالہ بہ کام آ ہی گیا
زندگی کو موت بننے کا پیام آ ہی گیا
اب جبینِ شوق کو سجدوں سے فرصت ہو گئی
دل جہاں جھکتا ہے آخر وہ مقام آ ہی گیا
بڑھتے بڑھتے آنسوؤں کی خشک سالی بڑھ گئی
ہچکیوں کی حد میں قلبِ تشنہ کام آ ہی گیا
عشق کی خود داریوں نے مجھ کو بخشا وہ مقام
جس جگہ مغرور نظروں کا سلام آ ہی گیا
نو عروسانِ چمن کے دامنِ گل رنگ پر
کیف باراک ابرِ آہستہ خرام آ ہی گیا
شادباش اے جذبِ دل، ذوقِ نظارہ شاد باش
تالبِ بامِ نظر حسنِ تمام آ ہی گیا
ہچکیوں میں ہو گیا گم نارسائی کا گلہ
رہبرو ہستی کو منزل کا پیام آ ہی گیا
دیکھ کر شرمندۂ تکمیل تعمیرِ حیات
کشت و خوں کو زد پہ دنیا کا نظام آ ہی گیا
ڈھلتے ڈھلتے نور کے سانچے میں فطرت ڈھل گئی
آتے آتے دردِ دل انساں کے کام آ ہی گیا
میرے نغمے گونج اُٹھے طرفہ فضائے قدس میں
قدسیوں کی بزم میں بھی میرا نام آ ہی گیا
طرفہ قریشی
No comments:
Post a Comment