Friday, 31 December 2021

آہ بر لب غم بہ دل نالہ بہ کام آ ہی گیا

 آہ بر لب، غم بہ دل، نالہ بہ کام آ ہی گیا 

زندگی کو موت بننے کا پیام آ ہی گیا 

اب جبینِ شوق کو سجدوں سے فرصت ہو گئی 

دل جہاں جھکتا ہے آخر وہ مقام آ ہی گیا 

بڑھتے بڑھتے آنسوؤں کی خشک سالی بڑھ گئی 

ہچکیوں کی حد میں قلبِ تشنہ کام آ ہی گیا 

عشق کی خود داریوں نے مجھ کو بخشا وہ مقام 

جس جگہ مغرور نظروں کا سلام آ ہی گیا 

نو عروسانِ چمن کے دامنِ گل رنگ پر 

کیف باراک ابرِ آہستہ خرام آ ہی گیا 

شادباش اے جذبِ دل، ذوقِ نظارہ شاد باش 

تالبِ بامِ نظر حسنِ تمام آ ہی گیا 

ہچکیوں میں ہو گیا گم نارسائی کا گلہ 

رہبرو ہستی کو منزل کا پیام آ ہی گیا 

دیکھ کر شرمندۂ تکمیل تعمیرِ حیات 

کشت و خوں کو زد پہ دنیا کا نظام آ ہی گیا 

ڈھلتے ڈھلتے نور کے سانچے میں فطرت ڈھل گئی 

آتے آتے دردِ دل انساں کے کام آ ہی گیا 

میرے نغمے گونج اُٹھے طرفہ فضائے قدس میں 

قدسیوں کی بزم میں بھی میرا نام آ ہی گیا 


طرفہ قریشی

No comments:

Post a Comment