یہ فرش خاک ہے کیا بحر بیکراں کیا ہے
اگر یہ حدِ نظر ہے تو آسماں کیا ہے
وہ لامکاں کا مکیں ہر مکاں میں کیسے ہے
وہ ہر مکاں میں اگر ہے تو لامکاں کیا ہے
اگر زمیں پہ بشر سے بھی یہ تقاضا ہے
تو پھر فلک پہ عباداتِ قدسیاں کیا ہے
وہاں سے تو مجھے بھیجا گیا یہاں کے لیے
یہاں بھی کچھ نہیں میرا تو پھر وہاں کیا ہے
جو مستقل ہے عذابِ مسافرت، کیا ہے
جو عارضی ہے رفاقت تو سائباں کیا ہے
اگر تُو چھوٹے سے دل میں سما گیا ہے تو پھر
تُو بے کنار ہے کیسا، تُو بے کراں کیا ہے
تُو راز تھا تو کیا فاش، کس لیے خود کو
تُو ہر جگہ جو عیاں ہے تو پھر نہاں کیا ہے
آصف راز
No comments:
Post a Comment