منظر کا احسان اُتارا جا سکتا ہے
آنکھ کو یارا بھوکا مارا جا سکتا ہے
آنگن آنگن آگ اُگائی جا سکتی ہے
کمروں میں دریا کا کنارا جا سکتا ہے
کرچی کرچی خواب چمکتا ہے آنکھوں میں
ان سے اب دنیا کو سنوارا جا سکتا ہے
بوندوں میں آئینے گھولے جا سکتے ہیں
چادر تن میں سفر گزارا جا سکتا ہے
جسم و دل کی ٹھن جانے پر یاد رکھو
جسم کو جیتو، دل تو ہارا جا سکتا ہے
جس بستی کے راشن گھر میں خون بٹے
وہاں فقط لاشوں کو سنوارا جا سکتا ہے
جس آنگن کی سانولیاں روٹی جیتیں
اس کے توے پر چاند اُتارا جا سکتا ہے
آتش داں کا سینہ ٹھنڈا ہو سکتا ہے
برف کا ٹکڑا بن کے شرارا جا سکتا ہے
فاروق طاہر
No comments:
Post a Comment